پھر لہو لہو ہوا ہے چمن
نہ جانے کتنے چراگ
کتنی امیدیں کتنے خواب
آج پھر ہوئے ہیں دفن
#Laal_Shehbaz_Shrine_blast
16/02/2017
Urdu Writer
Feb 16, 2017
Dec 27, 2016
معافی
آج اتنی دیر بعد وہ میرے دروازے کے سامنے کھڑا تھا. اسکی آنکھوں میں صاف شرمندگی دکھ رہی تھی. "میں اندر آ سکتا ہوں ؟" اس نے دھیمے سے لہجے میں پوچھا. اتنے سالوں بعد اسکا دھیما لہجہ سنا تو اک پل کے لئے مجھے وہ خوبصورت دن یاد آ گۓ جب وہ مجھ سے بہت عزت احترام اور محبت سے بات کرتا تھا.
اسکے اجازت لینے کے انداز نے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیردی. "مجھے معلوم ہے کہ جب آپ پر کوئی دروازے بند کر دے تو کیسا محسوس ہوتا ہے." میری بات سن کر وہ شرمندہ ہوا. شائد اسے اپنا کیا یاد آ گیا تھا. "آ جایئں...!" میں نے دروازے سے پیچھے ہٹ کر کہا.
وہ میرا چھوٹا سا مگر خوبصورتی سے سجا ہوا گھر دیکھنے لگا. "تمہارا گھر تو بہت خوبصورت ہے. " اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا.
میرا جی چاہ رہا تھا جیسے ان سالوں میں خود پر بیتے اک اک دن کی داستان کاشان سے بیان کروں. اس پر حق جتا کر اسکی ناراضگی اور بے رخی کا غلہ کروں اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر اتنا روؤں کے میرے دل کے سارے دکھ دھل جایئں مگر میں نے خود کو سمجھایا. "یہاں آنے کی وجہ ؟" اور میں نے بات کو مختصر کر دیا. اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب ڈھونڈتا کمرے سے اک پھول سے بچے کے رونے کی آواز آئی. یہ آواز سننے کے لئے وہ ترسا ہوا تھا. میں کمرے کی طرف جانے لگی تو وہ پیچھے آ گیا.
آج وہ پہلی بار اپنے دو سال کے بیٹے کو دیکھ رہا تھا. اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اسے دبوچ لے اور ڈھیر سارا پیار کرے مگر میں نے ذاکر کو خود اٹھا لیا. مجھے اپنے پاس پا کر وہ خاموش ہو گیا.
جب اس نے رونا بند کیا تو میں نے کاشان کی طرف دیکھا جو مجھے اس سے پیار کرتا دیکھ کر مسکرا بھی رہا تھا مگر اپنے آنسوؤں کو روکنے میں ناکام ہو رہا تھا.
اس نے ہمت کی اور وہ اگے بڑھا. میں ذاکر کو لے کر ایک قدم پیچھے ہو گئی. "یہ صرف میرا بیٹا ہے. صرف میرا....!" میں نے ناراضگی سے کہا.
"ارفع میں بہت شرمندہ ہوں. پلیز مجھے معاف کر دو. " اس نے اپنے دونو ہاتھ میرے سامنے جوڑ دئیے.
اک پل کے لئے میری جان نکل گئی. وہ میری محبت تھی. چاہے میں کہنے کو اس سے نفرت کرتی تھی مگر آج بھی جب اسے یوں شرمندہ دیکھ رہی تھی تو میرا دل کٹ رہا تھا.
"کیوں؟ تمہاری دوسری بیوی سے بھی تو اولاد ہوئی ہو گی نا، تم ان سے پیار کر لیا کرو. یہ میرا بیٹا ہے. " میں نے اک پل کے لئے بھی اپنا لہجہ نرم نہ کیا.
"میرا صرف ایک ہی بیٹا ہے اور ایک ہی بیوی ہے جو اس وقت میرے سامنے موجود ہیں." اس نے لہجہ تھوڑا بلند کیا پر میری آنکھوں میں غضب دیکھ کر دوبارہ نرمی سے بات کرنے لگا. "ارفع! مجھے معاف کر دو. تمہارا دل دکھا کر مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا. وہ سب ایک فریب تھا دھوکہ تھا. میں بہک گیا تھا. بھٹک گیا تھا. مجھے راستہ دکھا دو." وہ اتنا رویا کہ اسکی ہچکی بندھ گئی.
"عورت کمزور نہیں ہوتی. جب زرین تمہاری زندگی میں آئی تھی تو تم نے کہا تھا. آج سے میرا تم سے کوئی تعلق نہیں. اگر ہمت ہے تو دوبارہ میرے دروازے پر آئے بغیر زندگی گزرنا اور دیکھو تمہاری دولت سے اک پائی لئے بغیر میں خود کو اور اپنے بیٹے کو آسانی سے پال رہی ہوں کہ میں اک پڑھی لکھی با شعور عورت ہوں. آج تم میری چوکھٹ پر آے ہو...میں نہیں...!"میرے بھی آنسو جھلک پڑے تھے. میرا وجود کانپ رہا تھا. اب میں اپنے جذبات چھپا کر تھک گئی تھی. "مگر ایک بات بتاؤں کاشان! الله پاک نے عورت کو پتہ نہیں کس مٹی سے بنایا ہے. جب ایک بار دل پر کسی کا نام لکھ لے تو مٹا ہی نہیں پاتی. مکمل خود مختار ہو بھی جائے تو بھی اپنے ہمسفر کے بغیر ادھورا محسوس کرتی ہے." مجھ سے مزید بات نہیں ہو رہی تھی. "خدا نے عورت کا دل بہت بڑا بنایا ہے. معاف کرنا سکھایا ہے." میں نے ذاکر اسے تھمایا . "میں نے بھی تمھیں معاف کیا."
امید سہرOct 5, 2016
قیمتی
ان کے پاس کوئی ڈگری نہ تھی. مجھے نہیں لگتا کہ وہ کبھی سکول بھی گئی ہوں گی لیکن
اکثر وہ ایسی ایسی باتیں کر دیتی کہ میں اتنی تعلیم یافتہ ہو کر بھی انکی باتیں نہ سمجھ پا
ہماری حویلی میں کام کرنے والی حلیمہ بی بی کی زندگی بظاھر تو ایک کھلی کتاب تھی لیکن اس میں کئی راز اور کئی تجربات ایسے تھے جنہوں نے اسے ایسی باتیں سیکھا دی تھیں کہ لوگ ساری ساری زندگی تعلیمی اداروں سے وابستہ رہ کر نہ سیکھ پاتے. وہ مجھ سے بات کرتیں تو کہتی "بی بی جی!" اور مجھے اکثر شرمندگی ہوتی. "حلیمہ بی بی! آپ مجھے میرے نام سے پکارا کریں. مسکان کہہ لیا کریں اور ہاں آپ میرا کوئی کام بھی نہ کیا کریں اور ملازم بھی تو ہیں." میں اکثر ان سے کہتی.
"بی بی جی! جب آدمی اپنی اوقات بھول جاتا ہے تو اسے فائدے کی بجاۓ اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے. میں اپنی ڈیوٹی کرتی ہوں." وہ پر اعتماد لہجے میں کہتی.
"آج میں اسلام آباد واپس جا رہی ہوں. یہ میری پڑھائی کا آخری سال ہے. آپ مجھے کیا نصیحت کرتی ہیں ؟" گھر سے نکلتے ہوئے آج پہلی مرتبہ میں نے ان سے پوچھا.
"جو آپکو کتابیں بتاتی ہیں نا وہ صرف سنا نہ کرو، سمجھا کرو. صرف ڈگری نہ لینا علم حاصل کرنا باقی کچھ باتیں تو صرف تجربہ ہی سیکھاتا ہے ."
وقت گزرتا گیا.آج جب میں اسلام آباد سے اپنی وکالت کی تعلیم مکمل کر کے واپس آ رہی تھی تو ان سے ملنے کے لئے بے تاب تھی .
سب بہت خوش تھے. جب ادھر ادھر دیکھنے کے بعد کہیں بھی وو دکھائی نہ دی تو میں نے امی جان سے پوچھا. "ماں ! حلیمہ بی بی کہاں ہیں ؟"
"نکال دیا ہے اسے ہم نے کام سے، تمہارے کمرے میں پڑا خوبصورت تحفہ جو تمہارے دادا تمہارے لئے مصر سے لاۓ تھے وو اس نے توڑ دیا."
ان کے منہ سے یہ بات سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی. "وہ اب کہاں ہیں ؟" میں نے بے صبری سے پوچھا.
"چلی گئی ہو گی اپنی کسی بیٹی کی طرف یا پھر مر مرا گئی ہو گی کہیں..."
اپنی ماں کی بات سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل ہے. "وہ اس قیمتی تحفے سے کئی گنا زیادہ قیمتی تھیں." میں صرف اتنا ہی کہ سکی.
Umeed e Sehar
Jun 20, 2016
Father's Day
میں اکلوتا بیٹا تھا اس لئے ماں باپ کی ساری توجہ اور پیار مجھے ہی ملا تھا. میرے ابا ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتے تھے. بہت زیادہ نہ سہی مگر ہم تینوں کا گزارا اچھے طریقے سے ہو جاتا تھا اور اماں ابا کبھی کبھی تو اپنی خوہشات مار کر میری ضروریات پوری کرتے مگر میرے منہ سے نکلی ہر بات پوری کی جاتی. میٹرک میں تھا تو میری اماں نے ہمیشہ کے لئے اپنی آنکھیں موند لی.
ان کے جانے کے بعد ابا میرا سہارا بنے. مجھے اماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی. شروع شروع میں تو وہ خود میرے لئے کھانا بناتے مگر مجھے یہ بات پسند نہ تھی تو ہم نے اک کم والی کا انتظام کر لیا.
وقت گزرتا گیا اب تو اخراجات بڑھتے جا رہے تھے مگر مجھے ابا نے کمی محسوس نہ ہونے دی اور میں نے ایم بی اے کر لیا.
مجھے ایک اچھی سی جاب مل گئی . اس کے بعد میں نے ابا سے کہا کہ وہ کام کرنا چھوڑ دیں . انکی اور اماں کی خوائش تھی کہ میں اپنی ماموں زاد سے شادی کروں مگر مجھے اپنے آفس میں ساتھ جاب کرنے والی ملائکہ میں دلچسپی پیدا ہونے لگی. وہ بہت خوبصورت اور زمانے کے ساتھ چلنے والی لڑکی تھی . میں اسکی شخصیت سے بہت متاثر ہو گیا اور اس سے شادی کا فیصلہ کر لیا.
نیا گھر اور آفس کی طرف سے مجھے گاڑی بھی مل گئی. میں نے شفٹنگ کے بعد ابا سے کھل کر ملائکہ کہ بارے میں بات کی شروع میں تو انہوں نے اعتراض کیا مگر پھر کہا کہ "مجھے اپنے حامد کی خوشی سب سے زیادہ عزیز ہے." لیکن وہ ماموں کو انکار کرتے ہوئے شرم سار ہو گئے.
وقت گزرتا گیا ابا کی صحت کے مسائل شروع ہو گئے. انہیں شوگر ہو گئی اور ان کے ہاتھ بھی کانپنے رہتے تھے. مجھے خدا نے دو جڑواں بیٹوں سے نوازا. ابا کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہی تھا.
وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے پوتوں کے ساتھ کھیلنے میں گزارتے.
ایک دن موسیٰ اور عیسی دونوں ان کے پاس تھے. انہوں نے موسیٰ کو اٹھایا ہوا تھے ایسے میں ان کا شوگر لیول کم ہو گیا اور وہ بے ہوش ہو گئے. موسیٰ نیچے گر پڑا تھا. اس بات پر بہت بحث ہوئی ملائکہ سے پہلے بھی ابا کا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا مگر اب وہ انہیں گھر میں بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی . ابا بچوں کو پیار کرنا چاہتے تو وہ انہیں ان سے دور کر لیتی.
اس نے شکوہ کیا کہ ابا ساری رات کھانستے رہتے ہیں بچے اور وہ دونوں ڈسٹرب ہوتے ہیں لہذا انہیں دار السکون چھوڑ آیا جائے. میں نے ایسا کیا اور ابا کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانے کے بہانے انہیں وہاں چھوڑ آیا، وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ہسپتال نہیں مگر انہوں نے مجھسے کچھ نہ کہا.
اس کے بعد نہ کبھی میں ان سے ملنے گیا نہ میں نے کبھی انہیں فون کیا. میرے بچے بڑے ہو رہے تھے . میں دبئی سے واپس آیا جب "father's day "تھا. میرے بچوں نے میرے لئے کارڈ بناے ہوۓ تھے اور مجھے وش کیا. موسیٰ نے مجھسے پوچھا کہ کیا میں اپنے ابو کو وش نہیں کروں گا. میں خاموش ہو گیا. آج اتنے وقت بعد مجھے ابا کا خیال آیا تو خود کو دار السکون جانے سے نہ روک پایا. ابا کو دیکھنے کی خوائش میرے جسم کو جلا رہی تھی.
میں وہاں پہنچا سوچا تھا اب ان سے معافی مانگ کر گھر لے جاؤنگا مگر میں بہت دیر کر چکا تھا. مجھے بتایا گیا کہ انکا انتقال ہو گیا ہے.
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں خود سے کبھی نظریں نہیں ملا پایا. مجھے اپنے بچوں کو پیار کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے. جی تو میں ویسے بھی نہیں رہا مگر اب مرنے سے بھی ڈر لگتا ہے کہ خدا کو کیا منہ دکھاؤنگا یا قیامت کے روز اپنے ابا
جان کا کیسے سامنا کرونگا
Umeed E Sehar
May 18, 2016
کاش کہ کبھی ایسا ہو
کاش کہ کبھی ایسا ہو کہ جب
سورج ڈوبنے والا ہو
چاند چمکنے والا ہو
پرندے گھونسلوں میں جاتے ہوں
کوئی جگنو جگمگاتا ہو
کسی بلبل کو راستہ دکھاتا ہو
پردیسی گھر کو آتے ہوں
پیاروں کو دل کا حال سناتے ہوں
تیری یادیں تیرے آنے کی امید دلاتی ہوں
اور پھر کاش کہ ایسا ہو
کہ تم سچ میں لوٹ آؤ
کاش ایسا ہو
سورج ڈوبنے والا ہو
چاند چمکنے والا ہو
پرندے گھونسلوں میں جاتے ہوں
کوئی جگنو جگمگاتا ہو
کسی بلبل کو راستہ دکھاتا ہو
پردیسی گھر کو آتے ہوں
پیاروں کو دل کا حال سناتے ہوں
تیری یادیں تیرے آنے کی امید دلاتی ہوں
اور پھر کاش کہ ایسا ہو
کہ تم سچ میں لوٹ آؤ
کاش ایسا ہو
May 14, 2016
میں تجھے بھلا چکا ہوں
ہاں میں تجھے بھلا چکا ہوں مگر
میں اکثر جب تیری گلی میں آتا ہوں
تیری ہنسی تیری چوڑیوں کی چنچناہٹ
تیرا مسکرانا کبھی چپکے سے آنسو بہانا
کبھی مجھے دیکھ کر چھپ جانا، شرمانا
کبھی نظریں چھپانا تو کبھی نظریں ملانا
تیرا وہ گنگنانایا مجھ سے اکثر روٹھ جانا
یاد آتا ہے......................بےشمار آتا ہے
امید سہر
Subscribe to:
Posts (Atom)