معافی
آج اتنی دیر بعد وہ میرے دروازے کے سامنے کھڑا تھا. اسکی آنکھوں میں صاف شرمندگی دکھ رہی تھی. "میں اندر آ سکتا ہوں ؟" اس نے دھیمے سے لہجے میں پوچھا. اتنے سالوں بعد اسکا دھیما لہجہ سنا تو اک پل کے لئے مجھے وہ خوبصورت دن یاد آ گۓ جب وہ مجھ سے بہت عزت احترام اور محبت سے بات کرتا تھا.
اسکے اجازت لینے کے انداز نے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیردی. "مجھے معلوم ہے کہ جب آپ پر کوئی دروازے بند کر دے تو کیسا محسوس ہوتا ہے." میری بات سن کر وہ شرمندہ ہوا. شائد اسے اپنا کیا یاد آ گیا تھا. "آ جایئں...!" میں نے دروازے سے پیچھے ہٹ کر کہا.
وہ میرا چھوٹا سا مگر خوبصورتی سے سجا ہوا گھر دیکھنے لگا. "تمہارا گھر تو بہت خوبصورت ہے. " اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا.
میرا جی چاہ رہا تھا جیسے ان سالوں میں خود پر بیتے اک اک دن کی داستان کاشان سے بیان کروں. اس پر حق جتا کر اسکی ناراضگی اور بے رخی کا غلہ کروں اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر اتنا روؤں کے میرے دل کے سارے دکھ دھل جایئں مگر میں نے خود کو سمجھایا. "یہاں آنے کی وجہ ؟" اور میں نے بات کو مختصر کر دیا. اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب ڈھونڈتا کمرے سے اک پھول سے بچے کے رونے کی آواز آئی. یہ آواز سننے کے لئے وہ ترسا ہوا تھا. میں کمرے کی طرف جانے لگی تو وہ پیچھے آ گیا.
آج وہ پہلی بار اپنے دو سال کے بیٹے کو دیکھ رہا تھا. اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اسے دبوچ لے اور ڈھیر سارا پیار کرے مگر میں نے ذاکر کو خود اٹھا لیا. مجھے اپنے پاس پا کر وہ خاموش ہو گیا.
جب اس نے رونا بند کیا تو میں نے کاشان کی طرف دیکھا جو مجھے اس سے پیار کرتا دیکھ کر مسکرا بھی رہا تھا مگر اپنے آنسوؤں کو روکنے میں ناکام ہو رہا تھا.
اس نے ہمت کی اور وہ اگے بڑھا. میں ذاکر کو لے کر ایک قدم پیچھے ہو گئی. "یہ صرف میرا بیٹا ہے. صرف میرا....!" میں نے ناراضگی سے کہا.
"ارفع میں بہت شرمندہ ہوں. پلیز مجھے معاف کر دو. " اس نے اپنے دونو ہاتھ میرے سامنے جوڑ دئیے.
اک پل کے لئے میری جان نکل گئی. وہ میری محبت تھی. چاہے میں کہنے کو اس سے نفرت کرتی تھی مگر آج بھی جب اسے یوں شرمندہ دیکھ رہی تھی تو میرا دل کٹ رہا تھا.
"کیوں؟ تمہاری دوسری بیوی سے بھی تو اولاد ہوئی ہو گی نا، تم ان سے پیار کر لیا کرو. یہ میرا بیٹا ہے. " میں نے اک پل کے لئے بھی اپنا لہجہ نرم نہ کیا.
"میرا صرف ایک ہی بیٹا ہے اور ایک ہی بیوی ہے جو اس وقت میرے سامنے موجود ہیں." اس نے لہجہ تھوڑا بلند کیا پر میری آنکھوں میں غضب دیکھ کر دوبارہ نرمی سے بات کرنے لگا. "ارفع! مجھے معاف کر دو. تمہارا دل دکھا کر مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا. وہ سب ایک فریب تھا دھوکہ تھا. میں بہک گیا تھا. بھٹک گیا تھا. مجھے راستہ دکھا دو." وہ اتنا رویا کہ اسکی ہچکی بندھ گئی.
"عورت کمزور نہیں ہوتی. جب زرین تمہاری زندگی میں آئی تھی تو تم نے کہا تھا. آج سے میرا تم سے کوئی تعلق نہیں. اگر ہمت ہے تو دوبارہ میرے دروازے پر آئے بغیر زندگی گزرنا اور دیکھو تمہاری دولت سے اک پائی لئے بغیر میں خود کو اور اپنے بیٹے کو آسانی سے پال رہی ہوں کہ میں اک پڑھی لکھی با شعور عورت ہوں. آج تم میری چوکھٹ پر آے ہو...میں نہیں...!"میرے بھی آنسو جھلک پڑے تھے. میرا وجود کانپ رہا تھا. اب میں اپنے جذبات چھپا کر تھک گئی تھی. "مگر ایک بات بتاؤں کاشان! الله پاک نے عورت کو پتہ نہیں کس مٹی سے بنایا ہے. جب ایک بار دل پر کسی کا نام لکھ لے تو مٹا ہی نہیں پاتی. مکمل خود مختار ہو بھی جائے تو بھی اپنے ہمسفر کے بغیر ادھورا محسوس کرتی ہے." مجھ سے مزید بات نہیں ہو رہی تھی. "خدا نے عورت کا دل بہت بڑا بنایا ہے. معاف کرنا سکھایا ہے." میں نے ذاکر اسے تھمایا . "میں نے بھی تمھیں معاف کیا."
امید سہر
No comments:
Post a Comment