ان کے پاس کوئی ڈگری نہ تھی. مجھے نہیں لگتا کہ وہ کبھی سکول بھی گئی ہوں گی لیکن
اکثر وہ ایسی ایسی باتیں کر دیتی کہ میں اتنی تعلیم یافتہ ہو کر بھی انکی باتیں نہ سمجھ پا
ہماری حویلی میں کام کرنے والی حلیمہ بی بی کی زندگی بظاھر تو ایک کھلی کتاب تھی لیکن اس میں کئی راز اور کئی تجربات ایسے تھے جنہوں نے اسے ایسی باتیں سیکھا دی تھیں کہ لوگ ساری ساری زندگی تعلیمی اداروں سے وابستہ رہ کر نہ سیکھ پاتے. وہ مجھ سے بات کرتیں تو کہتی "بی بی جی!" اور مجھے اکثر شرمندگی ہوتی. "حلیمہ بی بی! آپ مجھے میرے نام سے پکارا کریں. مسکان کہہ لیا کریں اور ہاں آپ میرا کوئی کام بھی نہ کیا کریں اور ملازم بھی تو ہیں." میں اکثر ان سے کہتی.
"بی بی جی! جب آدمی اپنی اوقات بھول جاتا ہے تو اسے فائدے کی بجاۓ اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے. میں اپنی ڈیوٹی کرتی ہوں." وہ پر اعتماد لہجے میں کہتی.
"آج میں اسلام آباد واپس جا رہی ہوں. یہ میری پڑھائی کا آخری سال ہے. آپ مجھے کیا نصیحت کرتی ہیں ؟" گھر سے نکلتے ہوئے آج پہلی مرتبہ میں نے ان سے پوچھا.
"جو آپکو کتابیں بتاتی ہیں نا وہ صرف سنا نہ کرو، سمجھا کرو. صرف ڈگری نہ لینا علم حاصل کرنا باقی کچھ باتیں تو صرف تجربہ ہی سیکھاتا ہے ."
وقت گزرتا گیا.آج جب میں اسلام آباد سے اپنی وکالت کی تعلیم مکمل کر کے واپس آ رہی تھی تو ان سے ملنے کے لئے بے تاب تھی .
سب بہت خوش تھے. جب ادھر ادھر دیکھنے کے بعد کہیں بھی وو دکھائی نہ دی تو میں نے امی جان سے پوچھا. "ماں ! حلیمہ بی بی کہاں ہیں ؟"
"نکال دیا ہے اسے ہم نے کام سے، تمہارے کمرے میں پڑا خوبصورت تحفہ جو تمہارے دادا تمہارے لئے مصر سے لاۓ تھے وو اس نے توڑ دیا."
ان کے منہ سے یہ بات سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی. "وہ اب کہاں ہیں ؟" میں نے بے صبری سے پوچھا.
"چلی گئی ہو گی اپنی کسی بیٹی کی طرف یا پھر مر مرا گئی ہو گی کہیں..."
اپنی ماں کی بات سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل ہے. "وہ اس قیمتی تحفے سے کئی گنا زیادہ قیمتی تھیں." میں صرف اتنا ہی کہ سکی.
Umeed e Sehar