Jun 20, 2016

Father's Day

میں اکلوتا بیٹا تھا اس لئے ماں باپ کی ساری توجہ اور پیار مجھے ہی ملا تھا. میرے ابا ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتے تھے. بہت زیادہ نہ سہی مگر ہم تینوں کا گزارا اچھے طریقے سے ہو جاتا تھا اور اماں ابا کبھی کبھی تو اپنی خوہشات مار کر میری ضروریات پوری کرتے مگر میرے منہ سے نکلی ہر بات پوری کی جاتی. میٹرک میں تھا تو میری اماں نے ہمیشہ کے لئے اپنی آنکھیں موند لی. 
ان کے جانے کے بعد ابا میرا سہارا بنے. مجھے اماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی. شروع شروع میں تو وہ خود میرے لئے کھانا بناتے مگر مجھے یہ بات پسند نہ تھی تو ہم نے اک کم والی کا انتظام کر لیا. 
وقت گزرتا گیا اب تو اخراجات بڑھتے جا رہے تھے مگر مجھے ابا نے کمی محسوس نہ ہونے دی اور میں نے ایم بی اے کر لیا. 
مجھے ایک اچھی سی جاب مل گئی . اس کے بعد میں نے ابا سے کہا کہ وہ کام کرنا چھوڑ دیں . انکی اور اماں کی خوائش تھی کہ میں اپنی ماموں زاد سے شادی کروں مگر مجھے اپنے آفس میں ساتھ جاب کرنے والی ملائکہ میں دلچسپی پیدا ہونے لگی. وہ بہت خوبصورت اور زمانے کے ساتھ چلنے والی لڑکی تھی . میں اسکی شخصیت سے بہت متاثر ہو گیا اور اس سے شادی کا فیصلہ کر لیا.
نیا گھر اور آفس کی طرف سے مجھے گاڑی بھی مل گئی. میں نے شفٹنگ کے بعد ابا سے کھل کر ملائکہ کہ بارے میں بات کی شروع میں تو انہوں نے اعتراض کیا مگر پھر کہا کہ "مجھے اپنے حامد کی خوشی سب سے زیادہ عزیز ہے." لیکن وہ ماموں کو انکار کرتے ہوئے شرم سار ہو گئے. 
وقت گزرتا گیا ابا کی صحت کے مسائل شروع ہو گئے. انہیں شوگر ہو گئی اور ان کے ہاتھ بھی کانپنے رہتے تھے. مجھے خدا نے دو جڑواں بیٹوں سے نوازا. ابا کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہی تھا. 
وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے پوتوں کے ساتھ کھیلنے میں گزارتے. 
ایک دن موسیٰ اور عیسی دونوں ان کے پاس تھے. انہوں نے موسیٰ کو اٹھایا ہوا تھے ایسے میں ان کا شوگر لیول کم ہو گیا اور وہ بے ہوش ہو گئے. موسیٰ نیچے گر پڑا تھا. اس بات پر بہت بحث ہوئی ملائکہ سے پہلے بھی ابا کا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا مگر اب وہ انہیں گھر میں بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی . ابا بچوں کو پیار کرنا چاہتے تو وہ انہیں ان سے دور کر لیتی. 
اس نے شکوہ کیا کہ ابا ساری رات کھانستے رہتے ہیں بچے اور وہ دونوں ڈسٹرب ہوتے ہیں لہذا انہیں دار السکون چھوڑ آیا جائے. میں نے ایسا کیا اور ابا کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانے کے بہانے انہیں وہاں چھوڑ آیا، وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ہسپتال نہیں مگر انہوں نے مجھسے کچھ نہ کہا. 
اس کے بعد نہ کبھی میں ان سے ملنے گیا نہ میں نے کبھی انہیں فون کیا. میرے بچے بڑے ہو رہے تھے . میں دبئی سے واپس آیا جب "father's day "تھا. میرے بچوں نے میرے لئے کارڈ بناے ہوۓ تھے اور مجھے وش کیا. موسیٰ نے مجھسے پوچھا کہ کیا میں اپنے ابو کو وش نہیں کروں گا. میں خاموش ہو گیا. آج اتنے وقت بعد مجھے ابا کا خیال آیا تو خود کو دار السکون جانے سے نہ روک پایا. ابا کو دیکھنے کی خوائش میرے جسم کو جلا رہی تھی. 
میں وہاں پہنچا سوچا تھا اب ان سے معافی مانگ کر گھر لے جاؤنگا مگر میں بہت دیر کر چکا تھا. مجھے بتایا گیا کہ انکا انتقال ہو گیا ہے. 
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں خود سے کبھی نظریں نہیں ملا پایا. مجھے اپنے بچوں کو پیار کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے. جی تو میں ویسے بھی نہیں رہا مگر اب مرنے سے بھی ڈر لگتا ہے کہ خدا کو کیا منہ دکھاؤنگا یا قیامت کے روز اپنے ابا 
جان کا کیسے سامنا کرونگا
Umeed E Sehar