بچپن میں جب بھی میں کوئی شرات کرتا تو اماں ناراض ہو کر کہتی " شفیق پتر! جے تو اینج ہی کردہ ریا تے میں ٹور جاوا گی " اور میں منہ پر مسکنیت طاری کرتے ہوئے جواب دیتا "اماں! آپ کہیں نہ جانا میں کوئی شرات نہیں کرو گا" اور پھر اماں پیار سے کہتی "پتر! ماواں وی کدی بچیا تو دور جاندیا نے
میں مڈل کے بعد لاہور پڑھنے کے لئے چلا گیا اور جب بھی اماں سے واپس گاؤں ملنے جاتا تو کہتی "میرا بیٹا بڑا افسر بنے دا تے پورے پنڈ وچ نیاز ونڈا گی
وقت اور حالات بدلتے گئے. میری پڑھائی مکمل ہونے والی تھی. اک دن لاہور سے واپس آیا تو دیکھا کہ اماں کی طبیت بہت خراب ہے مگر وہ ہمیشہ فون پر کہتی کے میں بلکل ٹھیک ہوں. میں اماں جی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا. دوا نے کچھ اثر نہ کیا اور اماں کا انتقال ہو گیا
پہلے میری چوٹی سے چوٹی خوشی بھی اماں کے ہونے سے مکمل تھی پر ان کے انتقال کے بعد بڑی سے بڑی خوشی بھی ادھوری لگتی. ہاں اک بات تو کا احساس ہوتا ہے اماں کہتی تھی نہ کے مائیں بچوں سے کبھی دور نہیں ہوتیں اب میری جو بھی خوشی ہو ہمیشہ وو یاد اتی ہیں وہ اس دنیا میں بیشک نہیں پر ہمیشہ میرے پاس ہی ہوتی ہیں
(الله سب کی ماؤں کو سلامت رکھے. (آمین